Tuesday, February 25, 2020

(دو دن قبل جس واقعہ پر لکھنا چاہا۔۔۔ سب ہی لوگوں نے اس کی تفصیل چاہی ہے۔۔۔ اور اب اس کی تفصیل پیش ہے۔۔۔ جن احباب نے پہلی تحریر نہ پڑھی ہو وہ وال سے پڑھ سکتے ہیں)
میں نے خاموشی سے پینتیس سو روپے نکالے اور کہا: تم نے پچیس سو کہا۔۔۔ یہ پینتیس سو لو اور جاو واپس گھر۔۔۔
اس نے مجھے گھور کر دیکھا۔۔۔ پیسے پکڑنے سے انکار کیا۔۔۔ کہتی پیسوں کے لیے نہیں کرتی۔۔۔ لے کر جانا ہے تو بتاو بس۔۔۔
میں حیران تھا۔۔۔ یہ پیسوں کے لیے نہیں کرتی تو کیا وجہ ہوسکتی ہے۔۔۔۔ سوال کیا:
پیسوں کے لیے نہیں کرتی تو یہاں کیوں کھڑی ہو؟
کہنے لگی: (I'm sex addicted)
میں نے حیرت سے پوچھا: تم پڑھی لکھی ہو؟
کہنے لگی: (I'm student of pre medical and doing part time job at private hospital)
اب کی بار میری حیرت بڑھ چکی تھی۔۔۔ پوچھا: اس غلط کام میں کیوں پڑی ہو؟ یہ ایڈیکشن کیسے ہوئی؟
جواب آیا: تمہیں کیوں بتاؤں؟ لے جانا ہے تو بتاؤ ورنہ مزید کوئی سوال نہیں۔۔۔
کہا: کیا معلوم میں تمہاری مدد کرسکوں۔۔۔ اس لیے بتاؤ کہ اگر یہ محض ایڈیکشن ہے تو یہ دو لڑکیاں یہاں کیوں ہیں ساتھ؟ اور ایڈیکشن کیسے ہوئی؟
وہ مجھے گھورنے لگی۔۔۔ ان تینوں نے اپنے چہرے ڈھانپ رکھے تھے۔۔۔ پھر بولی: میڑک میں مجھے سکول سے لانے لینے جانے کی ذمہ داری میرے کزن کے سپرد کردی گئی۔۔۔ وہ کالج جاتے ہوئے مجھے موٹر بائیک پر ڈراپ کرتا اور واپسی پر گھر لے جاتا۔۔۔ اس دوران ہماری بے تکلفی بڑھنے لگی۔۔۔ اور احساس ہی نہ ہوا کب ہمارے درمیان جسمانی تعلق استوار ہوگیا۔۔۔
قریب ڈیڑھ سال ہم اس تعلق میں رہے۔۔۔ کبھی سکول لے جانے کی بجائے وہ مجھے گھمانے لے جاتا تو کبھی کسی کمرے میں۔۔۔ اور یہ موقع ہمیں اپنے گھر میں بھی آسانی سے مل جاتا تھا۔۔۔ لیکن جب میں نے میٹرک پاس کیا تو اپنے علاقے ہی کے ایک کالج میں داخلہ لے لیا۔۔۔ میری ایک کلاس فیلو کو جب میری ان حرکات کا معلوم ہوا تو اس نے مجھے سمجھایا۔۔۔
میں واقعی اس کی بات سمجھ گئی۔۔۔ اور کزن سے کہا: ہم دونوں ایک حرام اور غلط تعلق میں ہیں۔۔۔ لیکن مجھے تم سے محبت ہوگئی ہے۔۔۔ ہم شادی کرلیتے ہیں۔۔۔ میرا کزن بھی اس بات کے لیے راضی ہوگیا۔۔۔
جب ہم نے گھروں میں بات کی۔۔۔ تو ہمیں بے غیرت اور بے حیا ہونے کے طعنے ملے۔۔۔ میں نے اپنی والدہ سے کہا کہ مجھے اب شادی کی ضرورت ہے ورنہ گناہ نہ ہوجائے۔۔۔ تب والدہ نے تھپڑ مارے اور گالیاں دیں۔۔۔ کچھ دن بعد مجھے اس کالج سے نکال کر لاہور ایڈمشن دلوا دیا گیا تاکہ کزن سے دور ہوجاؤں۔۔۔
(ابھی وہ یہ سب بتا رہی تھی کہ اس دوران ایک گاڑی بقیہ دو لڑکیوں کے پاس جا رکی۔۔۔ وہ ڈیل کرنے لگے۔۔۔ میں نے اسے کہا۔۔۔ ان لڑکیوں کو ابھی روکو۔۔۔ اس نے آواز دی۔۔۔ حنا صبر کرو آج نہیں جانا کہیں۔۔۔ اس کی آنکھوں میں نمی تھی۔۔۔)
سوال کیا: تو جب لاہور آگئی پھر اس کام میں کیسے پڑی؟
وہ قدرے غراتے ہوئے بولی: مجھے اپنے ماں باپ سے بدلا لینا تھا۔۔۔ اور میں نے خود کو بیچنا شروع کردیا۔۔۔ مجھے اس کی عادت بھی ہے۔۔۔ لیکن بدلے کے لیے میں نے یہ راہ اختیار کی۔۔۔
پوچھا: تو یہ باقی لڑکیاں؟
کہنے لگی: انہیں جب اس ''پلئیر'' کا بتایا تو ساتھ ملا لیا۔۔۔ تاکہ مجھے بھی مشکل نہ ہو۔۔۔
پوچھا: کیا تمہارے ماں باپ کو معلوم ہے کہ تم ان سے یہ بدلا لے رہی؟
آنسو بہاتے ہوئے جواب دیا: اتنی بے غیرت نہیں ہوں۔۔۔
تب کہا: پھر تم نہ تو ان سے بدلا لے رہی ہو۔۔۔ نہ انہیں کوئی تکلیف۔۔۔ تم تو خود ہی اپنے آپ سے بدلا لے کر خود کو تباہ کررہی ہو۔۔۔ اپنی آنے والی زندگی برباد کررہی ہو۔۔۔
اتنی دیر میں باقی دو لڑکیاں بھی پاس آگئیں۔۔۔ میں نے تینوں سے پوچھا: اگر تمہاری بیٹی بھی یہ کام کرے؟
ایک غصے سے بولی: شٹ اپ۔۔۔ ہم اسے ایسا کبھی نہیں کرنے دیں گی۔۔۔
جواب دیا: تو پھر تم بھی غلط کررہی ہو۔۔۔ اگر تمہیں پلئیر لینا ہے تو نکاح کرو۔۔۔ اور تمہیں بدلا لینا ہے تو بھی نکاح کرو۔۔۔ کل کو تمہارے شوہروں کو یہ بات معلوم ہوئی تو زندگی گزار پاؤ گی؟
وہی پہلی لڑکی بولی: جب انہوں نے انکار کردیا تو؟؟؟ میں نے کہا تھا۔۔۔ اس کزن کے علاوہ بھی جہاں چاہو کروا دو۔۔۔ لیکن گناہوں سے بچا لو۔۔۔ لیکن وہ ضدی تھے۔۔۔
کہا: ایسا کرو۔۔۔ اب گھر پیغام بھیجو۔۔۔ میرے لیے رشتہ ڈھونڈیں ورنہ کبھی بھی گھر نہیں آؤں گی۔۔۔ اور کورٹ میرج کرلوں گی۔۔۔ انہیں یہ دھمکی دے کر حلال زندگی گزارو۔۔۔ اگر تب بھی انہیں سمجھ نہ آئے۔۔۔ تو تھوڑا اطمینان رکھو۔۔۔ روزے رکھو۔۔۔ اور کسی عالم سے بات کرکے رشتہ تلاش کرو اور خود نکاح کرلو۔۔۔ لیکن اس زندگی سے توبہ کرو جو تم اپنی بیٹی کے لیے پسند نہیں کرتی۔۔۔
میں نے اسے جامعہ اشرفیہ اور منصورہ کا راستہ سمجھایا۔۔۔ کہ شائد ان دو جگہوں سے اسے کوئی مدد مل جائے۔۔۔ اب وہ رو رہی تھی۔۔۔ اور کہہ رہی تھی:
مجھے میرے ماں باپ نے برباد کیا ہے۔۔۔ میں ایسی ذلیل نہیں ہوں۔۔۔ مجھے گناہ پر شرم آتی تھی۔۔۔ لیکن بدلا مجھے اس جگہ لے آیا۔۔۔ نہ وہ مجھے کزن کے حوالے کرتے۔۔۔ اور نہ اس کے بعد لاہور بھیجتے۔۔۔ لیکن ان کی ضد اور انا نے مجھے اس جگہ پہنچایا۔۔۔
سمجھایا: ابھی کچھ بھی نہیں ہوا۔۔۔ تم اسی طرح روتے ہوئے سارا شکوہ اللہ کے سامنے رکھو اور توبہ کرلو۔۔۔ اگلے ہی لمحے اللہ معاف کردے گا۔۔۔
کہنے لگی: میں نے بہت زیادہ گناہ کیا ہے۔۔۔ اتنی جلدی کیسے معاف ہوگا۔۔۔
جواب دیا: اس سے بھی زیادہ جلدی معاف ہوجائے گا اگر سچے دل سے روتے ہوئے توبہ کرو گی۔۔۔ اگر ایک جسم فروش کو صرف کتے کو پانی پلانے کی وجہ سے ہدایت دے کر جنت بھیج دیا گیا۔۔۔ تو گڑگڑا کر رونے والے کی بھی جنت پکی ہے۔۔۔
اس نے کہا: میں خود یہ سب چھوڑنا چاہتی ہوں لیکن اب لت لگ چکی۔۔۔
جواب دیا: جب تم چاہتی ہو تو چھوڑنا بھی ممکن ہے۔۔۔ لیکن ایک بات بتاؤ۔۔۔ جب تم لوگ یہاں کھڑی ہوتی ہو۔۔۔ تو یہ پولیس والے بھی تو پاس سے گزرتے ہیں۔۔۔ کیا یہ کچھ نہیں کہتے؟
جواب آیا: کہتے ہیں۔۔۔ بہت کچھ کہتے ہیں۔۔۔ یہ پیسوں میں بھی اپنا حصہ وصول کرتے ہیں اور ویسے بھی۔۔۔
کیا واقعی؟؟؟
ہاں۔۔۔ کچھ لڑکیاں اور ''کھسرے'' ''ٹرانس جینڈرز'' باقاعدہ گاڑیوں میں یہاں آتے ہیں۔۔۔ انہیں یہاں اتارا جاتا ہے۔۔۔ ان گاڑی والوں نے ہم سے بھی رابطہ کیا تھا۔۔۔ یہ کوئی پورا نیٹ ورک ہے جو پولیس والوں کے ساتھ ملا ہوتا ہے۔۔۔
تمہیں یہ کیسے معلوم؟
جواب آیا: کیوں کہ حصہ تو ہم بھی انہیں دیتی ہیں۔۔۔ کبھی بتا کر اور کبھی یہ اچانک پیچھا کرتے ہوئے آتے ہیں۔۔۔ اور ڈرا دھمکا کر پیسے لے جاتے ہیں۔۔۔
بقول اس لڑکی کے: بدلے کا یہ طریقہ ایک پاکستانی ڈرامے اور انڈین فلموں سے سمجھ آیا۔۔۔
جاری ہے۔۔۔۔
(والدین کی غفلت۔۔۔ تربیت کا فقدان۔۔۔ جوائنٹ فیملی سسٹم کی بے تکلفیاں۔۔۔ محافظوں کا ملوث ہونا۔۔۔ ہمارا سوئے رہنا۔۔۔ آواز بلند نہ کرنا۔۔۔ مل کر تحریک نہ چلانا۔۔۔ غفلت۔۔۔ کرب۔۔۔ تکلیف۔۔۔)

No comments:

Post a Comment